1 مئ 2015
کراچی کانفرنس
ڈاکٹر احسان دانش
ادب اور اہل قلم کا پُر امن معاشرے کے قیام میں کردار
ایک ادیب کا اپنے معاشرے سے ربط اور تعلق ایک فطری عمل ہے۔ ادیب یا شاعر زندگی کی حرکات اور نشیب و فراز کو گہرائی سے محسوس کرتا ہے۔ اس طرح ادب اور زندگی کا تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ معاشرے میں جو کچھ ہے اور جو واقعات و حادثات وقوع پذیر ہورہے ہیں ادیب ان کے براہ راست اثرات قبول کرتا ہے۔ اگر ایک اہلِ قلم کے اردگرد امن کی فضا ہوگی تو وہ سکھ اور اطمنان کے نغمے گنگنائے گا لیکن اگر اس کے آس پاس بدامنی اور وحشت کا ماحول ہوگا تو اس کے من پر یقینی طور پر دکھ اور کرب کی پرچھائیاں چھا جائیں گی، ايسے حالات میں ظلم، بربریت اور جنگ اس کا موضوعِ سخن ہوگا۔ ویسے بھی امن کا متضاد لفظ جنگ یا بدامنی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں جنگ کے نقارے سنائی دے رہے ہیں۔ دھرتی پر ہر طرف بارود کی بو پھیلی ہوئی ہے۔ خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک میں بدامنی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے یہی مسئلہ ہمارے ملک کی جڑوں سے بھی پیوست ہوگیا ہے۔ اس ساری صورتحال کے پیشِ نظر اہلِ قلم کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
سليم اختر لکھتے ہيں که ”ادب میں جنگ سے نفرت کے واضح اثرات ملتے ہيں اور اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک اچھی تحریر بے شمار لوگوں کو متاثر کرسکتی ہے لیکن قیامِ امن کے لیے ایک پائیدار تصورِ حیات سامنے رکھ کے بات کرنا بالکل جداگانہ امر ہے۔ تحریر سے جنگ (بدامنی) کے خلاف نفرت پیدا کرنا بلاواسطہ ہے۔ ادیب جنگ سے نفرت دلاتا ہے۔ یعنی ایک منفی چیز (جنگ) کے خلاف منفی جذبہ (نفرت) کو ابھار کرمثبت (امن) کو جنم دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے یہ مثبت دائمی نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر وہ مثبت کے پرچار کے لیے مثبت قدر (نظریہ حیات) کا سهارا لیتا هے تو اثر دیر پا ہوگا۔ اس صورت میں فرد صرف جنگ سے متنفر ہی نہ ہوگا بلکہ امن کو شعار زيست سمجھتے ہوئے اس کے حصول کے لیے کوشاں بھی ہوگا۔“
ادب اور اہل قلم کا پُر امن معاشرے کے قیام میں کون سا کردار ہے یا ہوسکتا ہے۔ اس پر تفصیل سے بات کرنے سے پہلے ہمیں ادب، ادیب اور معاشرے کے تعلق کو سمجھنا اور ادیب کے سماجی کردار کو واضح کرنا ہوگا۔
جس طرح زبان، سماج اور کلچر کی ایک دوسرے سے گہری وابستگی ہے اُسی طرح ادب کا بھی اپنے معاشرے سے اٹوٹ رشتہ ہے۔ جس طرح زبان کسی قوم یا معاشرے کی علامت ہے ٹھیک اُسی طرح ادب بھی ہر معاشرے کی ضرورت ہے، کیونکہ زبان اور ادب کا خود ایک دوسرے سے گہرا رشتہ ہے۔ اس لیے جس طرح زبان کے بغیر ادب کا تصور ممکن نہیں اُسی طرح زبان کی زندگی اور دائمیت کے لیے ادب کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے، بلکہ اگر کہا جائے کہ ادب زبان کی روح ہے تو غلط نہ ہوگا۔
ادب نہ فقط زندگی کا ترجمان اور ناقد ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ وہ ہمار ہے رہن سہن کا مظہر بھی ہے۔ اس لیے اس وقت ہم کسی ايسے ترقی یا فتہ معاشرے کا تصور بھی نہیں کرسکتے کہ جہاں ادب اور ادیب نہ ہوں۔ علم و ادب کی شکلیں مختلف ہوسکتی ہیں کسی سماج میں ادب ارتقا پذیر ہوسکتا ہےليکن یہ بات ممکن نہیں کہ ادب اپنے سماج سے ہی لاتعلق ہو۔ ”ادیب معاشرے کا ایک فرد ہی نہیں، معاشرے کی زبان بھی ہوتا ہے کہ اُس کا ذہن حالات کا جائزہ لیتا ہے۔ داخلیت اور خارجیت کا امتزاج تنقیدِ حیات کا روپ دھار لیتا ہے اور یوں اس کا قلم جو شہ پارے تخلیق کرتا ہے، چاہے وه شعر کی شکل ميں هوں يا کهانی کی صورت ميں ان ميں وه اپنے عصر کی عکاسی کرتا ہے اور یہ عکاسی حقیقی تاریخ یا تاريخی حقیقت ہوتی ہے۔”
ادیب کے سماجی کردار کے حوالے سے روسی ادیب لیونڈ سوبو لوف لکھتے ہيں کہ ”ادیب کے لیے یہ صلاحیت لازمی ہے کہ وہ اپنے عہد کی روح اور اس کے ان مخصوص خصائل کو پہچان سکے جو اس کو ماضی سے جدا کر کے جدید شکل دیتے ہیں۔ خود ادیب عوامی زندگی سے جس قدر قریب ہو اُسی اعتبار سے اس کی روشناسی ان امور سے بڑہ جاتی ہے کہ لوگ کیا کرتے ہیں، کس طرح سوچتے ہیں اور کیسے خواب دیکھتے ہیں؟ تعمیراتی معاملات کو سمجھنے کا ذریعہ یہ ہی ہے کہ انسان خود تعمیرات کے مراحل میں شریک ہو، تا کہ وہ تعمیر مکمل ہوجانے پر اُس کا دُور سے نظارہ نہ کرتا رہے۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ ادیب کو اس کل کا جُز بننا ہے جسے ہم معاشرہ کہتے ہیں۔ ایک ادیب نہ صرف معاشرے کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیتا ہے مگر اپنے دؤر کے شعور کو بڑھانے میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔ وہ ایک تخلیقکار ہونے کی وجہ سے تخریب سے نفرت کرتا ہے اور تخلیق و تعمیر کو اہمیت دیتا ہے۔ ظلم سے نفرت کرتا ہے اور قیامِ امن کے لیے کوشاں رہتا ہے۔
مجنوں گو رکھپوری لکھتے ہیں کہ ”ادب انسان کے جذبات و خیالات کا ترجمان ہے اور انسان کے جذبات و خیالات تابع ہوتے ہیں زمانے اور ماحول کے، جیسا دؤر اور جیسی معاشرت ہوگی ویسے ہی جذبات و خیالات ہونگے۔ اور پھر ویسا ہی ادب ہوگا۔ ”جبکہ ڈاکٹر عبادت بریلوی ذرہ مختلف بات کرتےہیں۔ وہ لکھتے ہیں “ ادب کی تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کہ ادیب جس معاشرے میں پیدا ہوا، اس نے نه صرف اس معاشرے کی ترجمانی اور عکاسی کی بلکہ اپنے احساسات اور خیالات و نظریات سے اس کو بدلا بھی۔“ اس سچ سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ادیب اپنے سماج اور سماجی حالات سے ضرور متاثر ہوتا ہے نتیجتاً اس کی تخلیق میں سماج کا عکس اور پرتؤ بھی نظر آتا ہے اور یہ ایک ادیب کا بنيادی فرض بھی بنتا ہے، لیکن ڈاکٹر عبات بریلوی نے ادب کے سماجی عمل پر زور دیتے ہوئے جو بات کہی ہے وہ ادب کی اصل افادیت کو ظاہر کرتی ہے۔ با الفاظ ديگر ایک اہلِ قلم نہ فقط اپنے دور سے متاثر هوتا ہے بلکه اپنے عهد کو اپنے شعور و فکر سے متا ثر بھی کرتا ہے. اس سلسلے میں ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں ”ادیب محض ماضی کی روایات کا مقلد نہیں ہوتا اور رنه وہ رسم و رواج کا پابند ہوتا ہے۔ وہ زندگی کو ایک دم تغیر پذیر عمل سمجھتا ہے۔ اور اس تغیر پذییری میں جو حرکت اور پیش رفت ہوتی ہے اُسی کو وہ سماجی ارتقا کا نام دیتا ہے۔ اس کی نظر میں یہ پیش رفت خوب سے خوبتر کی طرف لازمی اور ابدی ہے۔ اور جہاں کہیں بھی کوئی کمی، کمزوری یا کجی اُسے نظر آتی ہے وہ اس کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔ اسے صحیح نہج پر لانے کی کوشش کرتا ہے اور اس میں ترمیم و تنسیخ کرنے کی راہ دکھاتا ہے۔ اسی بناؤ پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادیب روز ازل سے انقلاب و بغاوت کا طرفدار رہا ہے۔“
ڈاکٹر اے بی اشرف لکھتے ہیں کہ“شاعر یا ادیب عام انسانوں سے زیادہ تیز شعور اور احساس کا حامل ہوتا ہے اور اس کا مشاہدہ زیادہ عمیق اور گہرا ہوتا ہے۔ ہینڈرسن نے کہا ہے کہ ” شاعر معاشرے کا ایک ايسا رکن ہے جس کی جلد (Skin) دوسرے افراد کے مقابلے میں عموماً باریک ہوتی ہے۔“ گہر ے شعور اور احساس کی بدولت ہی انسانیت کے بارے میں دردمندی کا جو جذبہ شاعر اور ادیب کے دل میں پیدا ہوتا ہے وہ زندگی میں قدم قدم پر غور کرنے اور انسانی محرومی اور ناکامی پر کڑھنی پر مجبور کردیتا ہے:
خنجر چلے کسی په تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔
چناچہ یہ ہی وہ جذبہ ہے جو ادیب کو زندگی کی اقدار بلند کرنے اور انسانیت کے غم و آرام کو دور کرنے کے بارے میں غور و فکر پر مجبور کرتا ہے اور یہ ہی اجتماعی جذبہ اس کے ادب میں جاری وساری نظر آتا ہے اور اس کی بدولت معاشرے میں ادب اور ادیب کا منصب اور مقام متعین کیا جاسکتا ہے۔
فرد معاشرے کی وحدت ہے اور ادیب کا پہلا کام اسے جمالیاتی حظ پہچانے کے ساتھ ساتھ اُسے مايوسی اور انتشار سے نکالنا ہے۔ اِس طرح ادیب کو ذات کی آگئی سے دوسروں کی نفسیات تک پہنچنا ہوتا ہے۔ اس کا دوسرا کام اپنے معاشرے کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں دور کرنے اور سماج کو بہتر بنانے کی سعی کرنا ہے۔ تیسرا انسانی ارتقا کے حوالے سے ان سب کا ہاتھ بٹانا ہے جو اس میں مصروف عمل ہے۔ دوسرے لفظوں ميں اس کا فکر و شعور اور تخيل ايک وسيع تر معاشرے کے ليے کام کرتا ہے. ”فرد اور معاشرے میں مطابقت اور توازن پیدا کرنا ادیب کا نہیں ریاست کا کام ہوتا ہے۔ جب کہ ادیب فرد اور سماج کے درمیان باطنی توازن قائم کرتا ہے۔ اگر فرد تنہا ہے اور سماج میں رہتے ہوئے بھی خوف کا شکار ہے، اس کے ساتھ بے انصافی روا رکھی جارہی ہے، امن کی بجائے جنگ مسلط کی جارہی ہے، معاشرہ ترقی کی بجائےتنزل کی طرف جا رها ہے ، لوگوں نے سوچنا بند کرديا ہے تو اديب کا فرض بنتا ہے که اُنهيں سوچ کی راہیں دکھائے۔“ اور ایک ادیب کی سوچ یقیناً معاشرے میں اعتدال پسندی، انسان دوستی اور امن کا راستہ بناتی ہے۔
سماجی تبدیلی میں تخلیقکار کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔ وہ اپنے معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں ذہنی اور فکری طور پر حصيدار ہوتا ہے۔ وہ اپنے قلم کو عَلَم بنا کر سماج کو درست سمت میں لے جانے کی تدبیر کرتا ہے۔ غلام محمد گرامی نے ادیب کے سماجی کردار کے حوالے سے نہایت جامع نقطهءِنظر پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”ادیب تلوار اٹھاکر معاشرے کی اصلاح کے لیے لڑائی نہیں کرتا۔ وہ بم اور بارود سے سماج دشمن عناصر سے مقابلہ نہیں کرتا، وہ قانون کی لاٹھی ہاتھ میں اٹھاکر معاشرے کے غلط عناصر کے سر نہیں پھوڑتا۔ وہ سیاسی گندگی میں گھس کر سیاسی گرگٹوں کی طرح رنگ نہیں بدلتا، وہ ہنگامہ آرائی نہیں کرتا اور نہ ہی سوشل ورکر بن کر افراد کی فلاح و بہبود کے لیے خدمات سرانجام دیتا ہے۔ وہ واعظ اور ناصح بن کر مُلا اور مولویوں کی طرح رشدوہ ہدایت کے لیے واعظ نہیں کرتا۔ وہ دستوری رفارمر اور مصلح کا پارٹ ادا نہیں کرتا۔۔۔۔ مختصراً اگر کہا جائےتو وہ ایک ادیب کی حيثيت سے سماج کی عملی سرگرمیوں میں براہِ راست کوئی عملی حصہ نہیں لیتا۔ اس کا منصب فقط یہ ہے کہ وہ معاشرے کی ذہنی و فکری تعمیر و تشکیل میں حصہ لیتا ہے اور دیانتداری سے اپنے تجربات کو تخلیقی اور فنی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ ادیب اگر سماج کے ذہنی کالبوں میں تعمیری اور اصلاحی جذبات اور رحجانات اُڈیلنے میں کامیاب ہوتا ہے تو پھر لازمی طورپر سماج کی عملی زندگی میں تعمیری عوامل و اسباب زور پکڑتے ہیں۔ معاشرے میں گندگی وپرا گندگی پیدا ہوتی ہے۔ ایسا معاشرہ زندگی کے مقاصد اور تعمیری جہات سے محروم رہ جاتا ہے۔ ایسے معاشرے کا نہ حال روشن رہتا ہے اور نہ مستقبل . ایسا معاشرہ بے ذہن، نامعقول اور غلط کار لوگوں کا ایک ہنگامہ خیز ہجوم بن کر رہ جاتا ہے، اور ظاہر ہے کہ ایسا سماج جلدی یا دیر سے جاکر کسی الاؤ میں گر کر ختم ہوجاتا ہے۔“
ایک اعلیٰ پایے کا ادیب اپنی فکر اور سوچ میں سچا اور اپنی بات میں کھرا اور نڈر ہوتا ہے۔ اس لیے ادب کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ادیب نے حق کا علم ہاتھ میں تھام کر جب بھی کوئی بے باکانہ بات کہی ہے یا اپنے سماج میں مروج غلط روایات پر قلم اٹھايا ہے یا امن کی خاطر اپنے الفاظ کی طاقت سے ظلم کی دیواروں کو گرانے کی کوشش کی ہے تو کمزور معاشرے کے کمزور حکمرانوں نے اپنی کمزریوں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے اسے قید و بند کی صعوتبیں بھی بخشی ہیں تو اس کے ہاتھوں میں جلاوطنی کے پروانے بھی تھمائے ہیں۔ ایک ادیب جو سماج کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور سماج کی غلاظتوں کو برداشت نہیں کرتا، اس کے لیے وہ بیجا پابندیاں اور قیدو سلاسل ایک گھٹن کا باعث تو بنتی ہیں لیکن وہ گھٹن اُسے اپنے معاشرے سے الگ نہیں کر سکتی۔ جسمانی قیدوبند اور جلاوطنی اس کی فکر کو باندی نہیں بناسکتی۔ وہ ہر حال میں اپنے دؤر کی آواز بن کر معاشرے کی ان کمزوریوں کو آشکار اور ان قباحتوں کو بے نقاب کرتا ہے جو معاشرے کو ناسور کی طرح جکڑ چکی ہوتی ہیں۔ جو اہلِ قلم سماج کو اس کی ساری کمزوریوں کے ساتهه قبول کرتے ہیں وہ ڈرپوک اور ابن ابوقت کہلاتے ہیں اور غلیظ معاشرے کی طرف سے انہیں کئی مراعات سے بھی نوازہ جاتا ہے، لیکن ایک مزاحمتکار اور سچا ادیب ايسے معاشرے کا داناء دشمن ہوتا ہے۔ اس کی دشمنی تاریک معاشرے میں روشنی پیدا کرنے کے لیے ہوتی ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے درست فرمایا ہے کہ ”اُس معاشرے میں فکر و ادب پروان چڑھتی ہے جہاں ادیبوں اور مفکروں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ جہاں ان کے خیالات کا احترام کیا جاتا ہے، جہاں ان کی بات سُنی جاتی ہے، جہاں فکر و نظر کی آزادی ہوتی ہے اور ایک ایسے معاشرے میں جس نے آنکھ اور کان بند کر لیے ہیں، زندگی کا پیڑ سوکھنے اور مرجھانے لگتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ادب ہی وہ واحد وسیلہ ہے جس کے ذریعے ایک معاشرہ اپنی حقیقی روح دریافت کرتا ہے۔“
”فرد کی آزادی ایک انصاف پرور معاشرے کی تشکیل کے بغیر برقرار نہیں رہ سکتی، بلکہ وجود میں ہی نہیں آسکتی۔ آج پاکستان میں کوئی ایسا ادیب نہیں ہوگا جو اپنے معاشرے کی بہتری (اور امن) کا خواہاں نہ ہو اور اس مقصد کے لیے اپنے اپنے طریقے سے عمل پیرا نہ ہو۔ لیکن یہ یاد رہے کہ ادیب کا کام دھڑے بندی اور افترا پردازی نہیں، سستے نعرے لگانا اور گالی گلوچ پہ اتر آنا نہیں۔ ادیب کا کام لکھنا ہے۔ یہ ہی اس کی سب سے بڑی ریاضت ہے، لیکن ذہنی آزادی کے بغیر یہ کام سر انجام نہیں پا سکتا۔“
آج ہماری دنیا تنگ دلی، تعصب، غاصبانہ ذہنیت اور جنگ و جدل کا شکار ہے۔ آج ہماری سائنس کی ترقیات کا نقطہءِ عروج ان مہلک ہتھیاروں کی ذخیرہ اندوزی کی صورت اختیار کر رہا ہے جو دنیا کو کئی مرتبہ تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ انسان انسان کا دشمن ہورہا ہے۔ رنگ و نسل، ذات پات، قبیلہ و فرقہ حتاکہ زبان کی بنیاد پر فسادات عام ہیں۔ امن کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے ایسی بدامنی اور انتشار کی َفضا میں اہل قلم اپنی ذمیواری سے غافل نہیں ہوسکتے۔ معاشرے میں انتشار کے خاتمے اور قیام امن کے لیے ایک قلمکار، قلم کے عَلَم کوہی اونچا رکھتا ہے۔ اور اپنے ضمیر کی آواز پرلبیک کرتے ہوئے اس سماجی بے چینی کو تخلیق کے کالب میں ڈھال کر اپنا فریضہ ادا کرتا ہے۔ امن اور ادب کے درمیان تعلق ڈھونڈتا اور سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں۔ جب زندگی کے ساتھ کمٹمنٹ ہو تو امن کے ساتھ کمٹمنٹ لازمی ہے، یعنی جب ادب برائے زندگی پر کسی کو پختہ یقین ہوتو ادب برائے امن پر یقین فطری عمل ہے۔
دنیائے ادب میں جنگ اور ادب کے موضوع پرٹالسٹائی کا “وار اینڈ پیس” خاصے کی چیز ہے۔ مغربی دانش میں برٹنڈرسل نے اس موضوع پر خصوصاً تہذیبوں کے تصادم کے حوالے سے کُھل کر لکھا ہے۔ پہلی جنگ ِعظیم کے دوران ہرمن ہيسے نے جرمن قوم کی جنگ پسندی کے خلاف احتجاج کیا اور جرمنی سے نقل مکانی کرکے سوئٹزرلینڈ چلا گیا اور وہيں پر اس کا انتقال ہوا۔ اردو ادب کے حوالے سے دیکھا جائے تو ماضی میں فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی، حبیب جالب، احمد نديم قاسمی، احمد فراز اور دیگر کئی شعراءَ نے قیامِ امن کے لیے اپنے تخلیقی جواہر کے ذریعے معاشرے میں مثبت کردار ادا کیا ہے، اور سماج ميں باطل قوتوں کے ساتھه لڑتے ہوئے کئي صعوبتيں بھی برداشت کی ہيں. حبيب جالب کی نظموں نے انهيں جيل کي سلاخيں دکھائيں، فراز کی نظم “محاصرہ” پر انہیں جلاوطن کیا گیا۔.... اس طرح سعادت حسین منٹو نے “تماشہ” جیسا افسانہ لکھ کر بتایا کہ انفرادی سطح پر جنگی صورتحال سے بچوں کی نفسیات پر کیا اثر پڑسکتا ہے۔ کرشن چندر نے اپنے افسانے “آسماں روشن ہے” کا انتساب ان روشن ضمیر لوگوں کے نام لکھا جو ہندوستان اور پاکستان کے بیچ آسمان روشن دیکھنا چاہتے ہیں۔ اردو ادب ميں اس امن پسندي اور بھائيچارے کی اور بھي کئی مثاليں موجود ہيں.
ملک کے دیگر صوفیا ءکرام بلے شاہ، بابا فرید، خوشحال خان خٹک اور مست توکلی کی طرح سندہ کے صوفیا کرام نے بھی اپنے کلام میں امن و محبت کا پیغام دیا ہے۔ شاھ عبدالطیف بھٹائی، سچل سرمست، بیدل، بیکس اور سنده کے دیگر صوفی شعراء نے ظلم و بربریت سے نفرت کا اظہار کیا ہے اور اپنے کلام ميں سارے عالم کے لیے امن و سکون کی تمنا کی ہے۔ سندہ کے جدید شعراء اور نثر نگاروں نے بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ شیخ ایاز، عبدالکریم گدائی، ابراهيم مشی، سرویچ سجاولی، ایاز قاری، رشید بھٹی، امر جلیل اور سندھی زبان کے دیگر ادیبوں کی ملک کے بدلتے ہوئے حالات، بدامنی اور انتشار کے حوالے سے جامع تحریريں ملتی ہیں۔ اور یہ سلسلہ عصرِ حاضر تک بھی جاری ہے۔
حال ہی میں ملک کے ناسازگار حالات، خاص طور پر امن امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیشِ نظر اردو ادب کے ساتھ ساتھ سندھی ادب میں بھی بیشمار تحریریں منظر عام پر آئی ہیں۔ خاص طور پر خودکش حملوں اور فرقہ وارانہ انتشار اور قتل و غارت گری کے حوالے سے عصرِ حاضر کے افسانہ نگاروں نے شاندار افسانے تحریر کیے ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ تخلیقکاروں کی امن کی آشا کے حوالے سے علامتی تحریریں بھی بڑی اہمیت کی حامل ہیں. دورِ حاضر کے شاعروں نے اس بدامنی اور خلفشار کو مسترد کرتے ہوئے شاندار نظمیں لکھیں ہیں۔ان تخليقی کاوشوں کی وجه سے معاشرے ميں ظلم اور جنگ سے نفرت پيدا ہوئی ہے. اس ليےہم کہه سکتے ہيں که آج کا ادیب اپنی ذميداريوں سے ہرگز غافل نهيں اور وه اپنی قلمی کاوشوں کے ذریعے پُر امن معاشرے کے قیام کے لیے سرگرم عمل ہے۔
ادب برائے امن کی بات ایک ادیب تب ہی کرسکتا ہے جب وہ سماج کی اجتماعی بے سکونی کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ آج کچھ طاقتين دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف لے جارہے ہیں، لیکن نہ تو جنگ کا جواب جنگ ہے اور نہ ہی جنگ مسائل کا حل ہے۔ ساحر لدھیانوی نے کیا ہی خوب کہا تھا کہ:
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر....
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لیے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
آؤ اِس تیرہ بخت دنیا میں
فکر کی روشنی کو عام کریں
امن کو جن سے تقویت پہنچے
ایسی جنگوں کا اہتمام کریں
جنگ وحشت سے بربریت سے
امن، تہذیب و ارتقاء کے لیے
جنگ مرگ آفریں سیاست سے
امن، انسان کی بقاء کے لیے
جنگ، افلاس اور غلامی سے
امن، بہتر نظام کی خاطر
جنگ بھٹکی ہوئی قیادت سے
امن، بے بس عوام کی خاطر
جنگ، سرمائے کے تسلط سے
امن، جمہور کی خوشی کے لیے
جنگ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف
امن، پُرامن زندگی کے لیے
کتابيات
1. ادب اور کلچر ڈاکٹرسليم اختر سنگ ميل پبليکيشنز لاهور، 2001ع
2. ادب اور زندگی مجنوں گورکھپوری مکتبه دانيال، تيسری بار 2008ع
3. مسائلِ ادب (تنقيد و تجزيه) ڈاکٹر اے بی اشرف سنگ ميل پبليکيشنز لاهور، 1995ع
4. مقالات (کُل پاکستان اهلِ قلم کانفرنس 1980) اکادمي ادبيات پاکستان 1980ع
5. ادبی جائزے (پانچويں کُل پاکستان اهلِ قلم کانفرنس کے مقالات) اکادمي ادبيات پاکستان 1986ع
6. معيار (تنقيد) ممتاز شيريں نيا اداره لاهور، 1963ع
7. ادب اور اديب فاخر حسين نگارشات 1988ع
No comments:
Post a Comment